تعلیمی ادارے کا سربراہ ماحول کیسے بدل سکتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ذرا تصوّر کریں: ایک بندہ پولیس آفیسر یعنی تھانیدار ہے۔ بنیادی طور پر رشوت خور، حرام خور، بلیک میلر، کسی سیاستدان کا چمچہ ہے ۔۔۔ وغیرہ ۔
اب اس کا بیٹا سکول گوئنگ ہو گیا۔ کچھ برس بعد وہ بچہ بڑا ہو کر گریڈ 6/7 کی سطح پر آ گیا۔ اب اس سکول کے سست الوجود پرنسپل کا تبادلہ سکول کی دوسری برانچ میں ہو گیا یا وہ کسی بھی صورت منظر سے ہٹ گیا۔ نیا پرنسپل آیا جو پروفیشنل تربیت کیساتھ کیساتھ جذبہ و اُمنگ سے بھی لدا پھدا ہے۔
نئے پرنسپل نے آتے ہی سب اساتذہ میں کچھ ایسی رُوح پھونک دی کہ سب self motivation کیساتھ بہتر پرفارم کرنے لگ گئے۔ ساتھ میں اُس مردِ دانا نے بچوں کے والدین اور کمیونٹی کو اِس سارے تربیتی عمل میں actively اِنوالو کر لیا ــــ وہ جانتا ہے کہ بچے کی مجموعی شخصیت ہر شے سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ سب اہم سٹیک ہولڈرز ہیں۔
کیسے اِنوالو کِیا؟
بچوں سے متعلق عمدہ فِیڈ بیک بھیج کر۔ اُن کی صلاحیتوں کی شناخت اور اُن کے مطابق بچوں کو مواقع عطا کر کے۔ اُن سے پرفارم کرا کر، اور ایسی پرفارمنس پر رپورٹ بھیج کر والدین کے احساسات کو انگیخت کرتے ہوئے۔۔۔ خود بچے کا جوش و خروش بھی کافی ہے والدین کو سکول تک کھینچ لانے کو۔
اب اُس پرنسپل نے پولیس والے سے ملاقات کی اور اُسے اِنسپائر کر لیا کہ آپ ہمارے بچوں اور والدین کو بتائیں کہ :
بطور شہری اُن کے حقوق کیا ہیں؟
وہ کیا عوامل ہیں کہ بعض لوگ مجرم بن جاتے ہیں؟
اس کمیونٹی میں رہتے ہوئے اُنہیں کن کن باتوں کا خیال رکھنا اور الرٹ رہنا چاہئیے ؟
پولیس ڈیپارٹمنٹ کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ لوگوں کے اُن پر کیا حقوق ہیں؟ اور پولیس والوں کا اُن پر کیا حق ہے؟
ایک ایسا پولیس والا جو اپنی کمیونٹی کے بچوں اور والدین سے مل چکا ہو، اخلاقی باتیں بگھار بیٹھا ہو، سکول کے فنکشنز میں بلایا جاتا ہو، PTM اٹینڈ کرتا ہو، ہزار شرم کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اُس سے اپنی کمیونٹی کے حق میں کچھ ایسا برا نہ ہو جائے کہ لوگ انگلیاں اٹھائیں، اور اس کے بچے کو سکول میں face کرنا مشکل ہو جائے۔
اُس کا بچہ انگریزی، میتھ، سائنس وغیرہ ایسے مضامین کے لئے اُن والدین سے connect کرا دیا جائے جو بنا فیس لئے یا تھوڑی بہت فِیس لیکر بھی اچھا پڑھا سکتے ہوں۔ آپ اُس کے بچّے میں بہ صد جوش و خروش executive life skills یعنی عمدہ عادات و اطوار فِیڈ کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کا اظہار وہ ہر روز گھر جا کر کسی درجہ کیا کرتا ہے۔۔۔ تو عربی میں کہتے ہیں اَلاحسانُ یقطع الّلسان ـــ یعنی احسان زبان کاٹ دیتا ہے۔ بدلے میں اُس پولیس آفیسر کی سوچ، اُس کا کردار کچھ نہ کچھ ضرور بدلے گا۔ اُسے حیا کرنا ہو گی۔۔۔۔
اِس نوع کی نیٹ ورکنگ سے ایسا سوشل پریشر ایک اچھا پرنسپل create کر سکتا ہے۔
اسی طرح، ایک دوسرا شخص ڈاکٹر ہے۔ تیسرا شخص بزنس مین، چوتھا بلدیہ میں کوئی عہدیدار، پانچواں صحافی، چھٹا پٹرول پمپ چلانے والا، ساتواں کسی فوڈ ریسٹورینٹ کا مالک ۔۔۔ یہ سب اپنے اپنے شعبہ سے متعلق اہم آگاہی دینے کو سکول میں مدعو کئے جاتے، اورPTM اٹینڈ کرنے پر مجبور کر لئے جاتے ہیں، حتٰی کہ اِن میں سے ہر ایک کے مخصوص "اڈّے" پر جا کر، اُس سے connect رہتے ہوئے سکول کے بچے ہر سہہ ماہی میں ایک ایک پراجیکٹ مکمّل کیا کرتے ہیں جس سے انہیں حقیقی زندگی کیساتھ کنیکٹ ہو کر ذہنی بلوغت میسّر آتی ہے ۔۔۔ تو یہ سب شخصیات بطور والدین بھی اور ایکدوسرے کے حق میں بطور کمیونٹی کے بھی کیسا عمدہ رابطے میں آجائیں گے، اور متحرّک رہیں گے۔
والدین اور کمیونٹی کیساتھ مل کر کام کرنا اِسی بلا کا نام ہے کہ آپس میں پہچان قائم ہو، ایکدوسرے سے ہم ربط ہوا جائے اور متواتر رہا جائے۔ بچّے کی صحت، اُس کے رجحانات، اس کے گریڈز بہرصورت اِمپروو کر جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اِس موضوع پر ڈھیروں سرویز، ریسرچز اور رپورٹس موجود ہیں۔ اُن ممالک میں بچوں کو کمیونٹی ورک میں بار بار اِنوالو کرنا، اور کمیونٹی کو سکول کیساتھ جوڑے رکھنا آجکل تعلیمی اداروں کا ایک نیا، پازیٹو رُجحان بن کر اُبھرا ہے۔ ہمارے ہاں کے تعلیمی ادارے بھی اِس پہلو پر توجّہ دیں۔
ایسا کیوں ممکن نہیں کہ مختلف اداروں کے دو تین عدد پرنسپل صاحبان مہینہ بھر میں ایک بارکوآرڈینیٹ کریں۔ ان اداروں کے بچّے بلدیہ اور پولیس وغیرہ کے تعاون سے بازار کا وزٹ کریں ۔ وہاں گندے ہوٹلوں اور ریستورانوں پر مصروفِ کار عملہ سے ہاتھ دھونے اور صفائی سے متعلق دیگر ہدایات شیئر کریں۔ ایسے اصولوں کا عملی مظاہرہ کر کے۔ پسینہ ٹپکا کر گندے ہاتھوں آٹا گوندھتے اور روٹیاں پکاتے عملہ کو صفائی ستھرائی کا پیغام دیں۔ بازار میں کوئی سے 20 یا 30 مقامات پر چارٹ پیپر سے بنے ڈسٹ بِن لگا دیں جن پر اپنے اپنے سکول کے نام کا مخفّف بھی لکھ دیا جائے۔ اگر نام لکھنا اچھا نہیں تو ہر ادارہ اپنے لئے کوئی رنگ مختص کر لے، جیسے نیلا، پیلا، سُرخ۔ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ تعلیمی ادارہ ساتھ والے محلّے کی صفائی کے لئے سال بھر میں کسی ایک دن ایک گھنٹہ مختص کر لے۔ محلّے کے لوگوں کو احساس دلائے کہ گلیوں میں صفائی اور روشنی کا مناسب اہتمام رکھنا، دوچار مقامات پر کیمرے نصب کرنا، ایک عدد چھوٹا سا گراؤنڈ یا کچھ جگہ بچوں کے کھیل کُود کے لئے مختص کرنا اور اِس ضمن میں سِٹی گورنمنٹ پر دباؤ ڈالنا اُن کی ذمّہ داری ہے۔ جن بچوں اور لڑکوں کو کھیل کُود کے مواقع دستیاب نہ ہوں وہ نشہ بیچنے والوں کے ہاتھ چڑھ جایا کرتے ہیں۔ جبھی کہتے ہیں کہ ملک میں گراؤنڈز کی تعداد بڑھا دو، اور نشئی کم کر لو۔
کمیونٹی ورک کرنا ہو گا۔ شہریوں کے جان و مال، امن امان، اور صفائی ستھرائی کے ضامن اداروں کو ایکٹو کرنا ہو گا۔ سکول کی چاردیواری نہیں، یہ پورا ماحول ہمارے بچوں کو بناتا ہے، یا بگاڑتا ہے۔ کمیونٹی کو اِس طور متحرّک کئے بنا یہاں کچھ بدلنے کا نہیں۔ تعلیمی ادارے کتابوں سے رٹے لگوا کر امتحان پاس کرانے اور گریڈز کے اشتہارات بینرز کی صورت دیواروں پر لٹکا کر مزید ایڈمشنز اِینٹھنے کی دوڑ سے باہر نکلیں۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھیں، اگلے برس کے لئے پلان کریں کہ جن گھروں کے بچے سکول آیا کرتے ہیں، اُن اور اُن کے والدین کی مدد سے سٹی گورنمنٹ کے مختلف شعبوں کو کیسے ایکٹو رکھا جا سکتا، اور زندگی کا چال چلن بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمایوں مجاہد تارڑ
16 جولائی، 2
Source: We have received the above writing from whatsapp message. The ownership is held by the above writer.