کیا آپ کا بچہ کند ذہن ہے؟
جانیے لرننگ سٹائلز کے بارے میں!
بچوں کے کم یا زیادہ ذہین ہونے کا تعلق ان کے والدین کی تعلیمی قابلیت یا ان کی پیدائش سے بالکل نہیں ہے جب تک بچہ پیدائشی طور پر کسی ایسی بیماری کا شکار نہ ہو جس کی وجہ سے سیکھنے کے عمل پر منفی اثر پڑ سکتا ہو۔
پھر کچھ بچے تدریسی عمل کے دوران کیوں جلدی سیکھ جاتے ہیں جبکہ کچھ کو وہی سبق سیکھنے یا یاد کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
اس سوال کا تعلق تعلیمی نفسیات سے ہے جو ایک باقاعدہ سائنس ہے اور اساتذہ کے ہر تعلیمی اور تربیتی نصاب میں اس پر باقاعدہ بات ہوتی ہے۔
تعلیمی نفسیات کے مطابق بر بچے کا لرننگ اسٹائل دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کا ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ اساتذہ ان الگ الگ لرننگ اسٹائلز سے واقف نہ ہونے یا دوران تدریس ان کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے سب بچوں کو ایک ہی طریقے سے پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کچھ بچوں کو بات سمجھ میں آجاتی ہے جبکہ کچھ اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو ذہین یا کند ذہن لیبل کر دیا جاتا ہے۔ اصل صورت حال اس سے بہت مختلف ہے۔ اس کے لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ لرننگ اسٹائلز کیا ہیں اور یہ ہمارے سیکھنے کے عمل پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
ہم سب سیکھنے کے عمل کے دوران اپنے مختلف حواس کو استعمال کرتے ہیں اور ان حواس سے حاصل شدہ انفارمیشن کو دماغ میں پراسس کرنے کے بعد انہیں مفید معلومات میں تبدیل کرکے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ گویا سیکھنے کا عمل سب سے پہلے ان حواس کے استعمال سے شروع ہوتا ہے جن کے ذریعے ہم انفارمیشن حاصل کرتے ہیں۔
انفارمیشن حاصل کرنے کے لئے آپ اپنے حواس خمسہ میں سے کون سی حس پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، اسی سے آپ کا مخصوص لرننگ اسٹائل وجود میں آتا ہے۔ اگر ان لرننگ اسٹائلز کو پہچان کر تدریسی عمل کے دوران ان کا خیال رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بچہ سیکھنے سے محروم رہ جائے۔
تحقیق کے مطابق بڑے بڑے لرننگ اسٹائلز تین ہیں۔ ان تینوں کو ملا کر ایک لفظ سے ظاہر کیا جاتا ہے جسے VAK کہا جاتا ہے۔ تفصیل نیچے۔
۱- وی کا مطلب ہے ویژول (Visual) یعنی یہ لرننگ اسٹائل رکھنے والے بچے سیکھنے کے لئے اپنی دیکھنے کی حس پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور یہ اسی وقت زیادہ سیکھتے ہیں جب تدریسی مواد میں تصویریں، نقشے، گراف، اور ٹیبل وغیرہ زیادہ شامل ہوں۔
۲- اے کا مطلب ہے آڈیٹوری (Auditory) یعنی یہ لرننگ اسٹائل رکھنے والے بچے سیکھنے کے لئے اپنی دوسری حسیات کے مقابلے میں سننے کی حس پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور اس وقت بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں جب تدریسی مواد میں لکچر، آڈیو کیسٹس، قصے کہانیاں وغیرہ زیادہ شامل ہوں جن کو بچے سن کر سمجھ سکیں اور پھر اپنے دماغ میں ان سے مناسب تصویریں بنا سکیں۔
۳- کے کا مطلب ہے کائینس تھیٹیک (Kinesthetic) یعنی یہ لرننگ اسٹائل رکھنے والے بچے دیکھنے اور سننے کی بجائے محسوس کرنے اور ہاتھ پاؤں کی حرکت سے سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کو سکھانے کا بہترین انداز ان کو عملی سرگرمیوں میں مصروف کرنا ہے۔ آپ کو بھی اپنے بچپن میں ٹیبلز یا پیراگراف یاد کرنے کے لیے پڑھنے کے دوران کمرے میں بار بار چکر لگانا یاد ہوگا۔
ضروری نہیں کہ ایک بچے کا صرف ایک مخصوص لرننگ اسٹائل ہی ہو، لیکن پھر بھی ہر بچے کے لرننگ اسٹائل میں ان تینوں میں سے کوئی ایک لرننگ اسٹائل غالب ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ درسی مواد اور طریقہ تدریس کو کس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ ان میں ان تینوں لرننگ اسٹائلز کو ایڈریس کرنے کی گنجائش اور صلاحیت موجود ہو۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو نصاب بنانے والوں کو اس کی تربیت دی جائے کہ وہ مختلف لرننگ اسٹائلز کو پہچان کر ان کی بنیاد پر درسی کتابیں اور دیگر مواد مرتب کرسکیں۔
اس کے بعد اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ پڑھانے کے دوران ان تین الگ الگ لرننگ اسٹائلز رکھنے والے بچوں کو ساتھ لے کر چلیں اور تدریسی عمل کے دوران کسی ایک لرننگ اسٹائل پر بھروسہ نہ کریں۔ اگر اساتذہ کی مناسب تربیت ہو اور وہ ان مختلف لرننگ اسٹائلز کو ذہن میں رکھتے ہوئے پڑھائیں تو کسی بچے پر ذہین یا کند ذہن کا لیبل چسپاں کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کس بچے کا لرننگ سٹائل کیا ہے؟
انٹرنیٹ پر بہت سے ایسے ٹیسٹ موجود ہیں جن سے آپ اپنا، یا کسی اور کا بھی لرننگ سٹائل معلوم کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا موثر تدریس کے لئے ہر بچے کا لرننگ سٹائل معلوم ہونا ضروری ہے؟ اگر ہو، تو بہت اچھا ہے۔ اور اگر نہ بھی ہو تو کم از کم درسی مواد کی تشکیل اور عمل تدریس کے دوران اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ سارے بچوں کا لرننگ سٹائل ایک سا نہیں ہوتا اس لیے تدریس کے دوران ایک ہی موضوع کو ایک سے زیادہ طریقوں سے واضح کیا جائے۔ مثلاً، کسی بھی موضوع پر ایک مختصر لیکچر، پھر سوال جواب، پھر ایک مشق، ایک عدد جسمانی فعالیت جس میں بچے اس موضوع کا عملی اطلاق سیکھ سکیں۔ اگر ان طریقوں کو تدریس کے دوران استعمال کیا جائے تو سارے بچے اپنے اپنے لرننگ سٹائل کے مطابق موضوع کو سمجھ لیں گے۔
(لرننگ اسٹائلز کے حوالے سے ان معلومات کا اطلاق صرف بچوں پر ہی نہیں، بڑوں پر بھی ہوتا ہے۔)
اس کے ساتھ ساتھ ڈیوڈ کولب کے چار لرننگ اسٹائلز، اور ملٹیپل انٹیلی جینسز کا نظریہ بھی بچوں کی تعلیمی نفسیات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ آئندہ اپنے یا کسی اور کے بچے کو کند ذہن لیبل کرنے سے پہلے یہ سوال ضرور اٹھائیں کہ کیا ان کے اساتذہ نے تدریسی عمل کے دوران ان کے مخصوص لرننگ سٹائل کو ایڈریس کیا ہے یا نہیں؟
جن والدین یا اساتذہ کو اپنے بچوں کے کند ذہن ہونے کے بارے میں شکایت ہو، انہیں لرننگ اسٹائلز کے بارے میں مزید جاننا چاہیے:
Source: received through WhatsApp message